تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر