بھول جاتے ہیں، مت بُرا کہنا لوگ پتلے خطا کے ہوتے ہیں
بہکا تو بہت بہکا، سنبهلا تو ولی ٹهہرا اس خاک کے پتلے کا ہر رنگ نرالا ہے
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
بھولنا تھا تو یہ اقرار” کیا ہی کیوں تھا بے وفا” تو نے مجھے پیار کیا ہی کیوں تھا
بکھر گیا ہوں بے وفا لوگوں کو اپنا بنا کر اے موت آ جا اب تیرا انتظار رہتا ہے مجھے
بےوفاؤں کی اس دنیا میں سنبھل کر چلنا یہاں محبّت سے بھی برباد کر دیتے ہے لوگ
بے وقت، بے وجہ، بے حساب مُسکرا دیتا ہوں آدھے دُشمنوں کو تو یونہی ہرا دیتا ہوں
برسوں سنوارتے رہے ہم کردار مگر کچھ لوگ بازی لے گئے صورت سنوار کر
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھِلتا روشن شررِ تیشہ سے ہے خانہء فرہاد
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابل ِمیراث پِدر کیونکر ہو
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
بوجھ اینٹوں کا اور بڑھا دو صاحب میرے بچے نے آج اِک فرمائش کی ہے
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے انتظار ہے اپنا
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ اب توقع نہیں رہائی کی
باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا
بزمِ جہاں میں نشتیں نہیں ہوتیں مختص جو بھی اِک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں دو قدم جو بھی میرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
بڑا پُر فریب ہے شہد و شِیر کا ذائقہ مگر ان لبوں سے ترا نمک تو نہیں گیا
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا محاذ عشق سے کب کون بچ کے نکلا ہے تو بچ گیا ہے تو خیرات کیوں نہیں کرتا